خوشگوار ازدواجی زندگی کے سات زریں اصول (ایم الطاف ‘ اسلام آباد)
”یقین نہیں آتا یہ سب کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے‘ میرا شوہر مجھے چھوڑ رہا ہے!“
مشہور میرج کونسلر ایلن لائے کہتی ہیں کہ اپنی پیشہ ور زندگی میں اس قسم کے الفاظ مجھے کم و بیش روزانہ ہی سننے پڑتے ہیں۔ میں ایسے جوڑوں سے ملتی ہوں جن کی ازدواجی زندگی بھنور میں ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے سے علیحدگی پر آمادہ ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات میاں بیوی میں سے کوئی ایک واقعات کے اچانک رخ پر بھونچکا رہ جاتا ہے۔ وہ حیران ہوتا ہے کہ حالات اس قدر جلدی قابو سے باہر ہو سکتے تھے۔
بہر حال میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ ازدواجی زندگی میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی علامتیں بہت پہلے نمایاں ہونے لگتی ہیں‘ مگر عموماً ان کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے لیکن ہوشیار جوڑے ان علامتوں کو نظر انداز نہیں کرتے۔ وہ فوراً ان کا مطلب سمجھتے ہیں اور آنے والی خرابی سے بچنے کیلئے اپنی ازدواجی زندگی میں پیدا ہونے والی رکاوٹوں کو دور کرنے میں جت جاتے ہیں۔
ایلن لائے صاحبہ نے اپنے طویل تجربے‘ مطالعے اور مشاہدے کی بناءپر خرابی کی سات عمومی علامتوں کی وضاحت کی ہے۔ انہوں نے زیادہ خوشگوار اور صحت مند ازدواجی زندگی کے متعلق مشورے بھی دیئے ہیں۔ تفصیل حسب ذیل ہے۔
اب آپ مل کر نہیں ہنستے
میاں بیوی محبت بھری زندگی گزار رہے ہوں تو وہ مل کر خوش ہونا پسند کرتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور غفلت سے کام لینے کے سبب‘ ازدواجی تعلق ڈل اور بے کیف ہو جاتا ہے۔ ایک خاتون نے مجھے بتایا میرا شوہر شام کو تھکا ہارا اور بور ہو کرگھر آنے لگا۔ گھر پہنچ کر وہ گالف کھیلنے والے ساتھی کا انتظار کرنے لگتا۔ اس کے دوست کی آمد تک میرے شوہر کی یہی کیفیت رہتی۔ جونہی دوست آتا وہ پہلے جیسا خوش باش نظر آنے لگتا۔ یہ حالت دیکھتے ہی میں سمجھ گئی کہ ہماری ازدواجی زندگی میں تبدیلیوں کا وقت آ گیا ہے۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ محبت کرنے والے جوڑے ایک دوسرے کیلئے غیر متوقع خوشیوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً بیوی اچانک میاں کو دفتر فون کر کے کہتی ہے کہ آج آپ کی پسندیدہ ڈش بنائی ہے ۔ شوہر گھر لوٹتے ہوئے راستے میں گلاب کے پھول خرید لیتا ہے۔ وہ پھولوں کا تحفہ وصول کرتے ہوئے بیوی کی آنکھوں میں پیداہونے والی چمک سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ بات اصل میں کسی تحفے کی نہیں بلکہ ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی ہے۔ جب ازدواجی زندگی سے اس قسم کی بظاہر چھوٹی موٹی باتیں ختم ہو جائیں تو جان جائیے کہ شادی بے لطف اور بے جان ہو گئی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس میں دوبارہ زندگی پیدا کرنے کیلئے سنجیدگی سے توجہ دی جائے۔
آپ کی ازدواجی زندگی بے کیف ہو گئی ہے
بہت سے لوگ شاید اس حقیقت سے بے خبر ہوں گے کہ ہمارے جذبے مدو جذر کا شکار رہتے ہیں۔ کبھی ان میں شدت اور ولولہ پیدا ہو جاتا ہے اور کبھی وہ ماند پڑ جاتے ہیں۔ لہٰذا جوڑوں کی زندگی میں بے نیازی کے دن آتے رہتے ہیں۔ شادی کے پانچ سات سال بعد عموماً ہم سفر میں پہلے برسوں جیسی کشش نہیں رہتی مگر پر لطف لمحات زندگی میں آتے رہنے چاہئیں۔
آپ غیروں کو راز دان بناتے ہیں
اکثر جوڑوں کے دوست ہوتے ہیں اور وہ ان کو اپنے رازوں میں شریک بھی کر لیتے ہیں لیکن جب آپ اپنے شریک حیات کے مقابلے میں کسی دوست پر زیادہ بھروسہ کرنے لگیں۔ خاص طور پر جبکہ اس دوست کا تعلق مخالف صنف سے ہو او رآپ اس کو زدواجی زندگی کی ایسی باتیں بھی بتانے لگیں جن سے آپ کے شریک حیات کی نجی زندگی میں دخل اندازی ہوتی ہو تو پھر صاف طور پر اس کامطلب یہ ہے کہ آپ کی ازدواجی زندگی میں خرابی پیدا ہو گئی ہے۔
ساتھی آپ کے بدترین روپ کو اجاگر کرتا ہے
پرمسرت ازدواجی زندگی آپ کی اچھائیوں کو آپ کے تخلیقی روپ کو نمایاں کرتی ہے۔ اس کے برخلاف ناگوار ازدواجی زندگی آپ کی خرابیوں کو اظہار کے مواقع دیتی ہے۔ جب چھوٹی چھوٹی باتیں تکرار کا باعث بننے لگیں جب ایک دوسرے کو لعن طعن مسلسل وطیرہ بن جائے‘ میاں بیوی بات بات پر جھگڑنے لگیں ‘ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر تل جائیں تو پھر سیدھی سی بات یہ ہے کہ ان کا تعلق بوجھ بن چکا ہے۔ ازدواجی امور کے اکثر ماہرین کے نزدیک میاں بیوی میں کسی حد تک اختلاف ہو تو کوئی حرج کی بات نہیں ۔ اس میں کوئی غیر معمولی معاملہ نہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کو دکھ دیئے بغیر اور انا کو ٹھیس پہنچائے بغیر اختلاف کی گنجائش موجود ہو تو یہ رشتے کی کمزوری کے بجائے اس کے استحکام کی علامت ہے۔ ہاں ‘ جب اختلاف بات بات پر ہو ‘ الجھنے اور جھگڑنے کا سبب بننے لگے‘ میاں بیوی ہر معاملے میں ایک دوسرے کے سامنے آجائیں تو جان جائیے کہ ان کے تعلق میں کوئی گہری خرابی پیدا ہو چکی ہے۔
آپ پرانی باتیں یاد نہیں کرتے
جب آپ گھر میں بیٹھ کر بیتے ہوئے دنوں کو یاد نہ کریں اور دل کی باتیں دل ہی دل میں رکھنا چاہیں تو یہ خرابی کا ایک اور اشارہ ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ خوش باش ازدواجی زندگی بسر کرنے والے اکثر میاں بیوی پرانے دنوں کو یاد کر کے اپنے تعلق ناطے کو مضبوط بناتے رہتے ہیں۔ وہ مل کر خاندانی تقاریب کی فلمیں دیکھتے ہیں‘ پرانی تصویروں کی البموں کی ورق گردانی کرتے ہیں‘ ماضی کے واقعات دہراتے ہیں اور ان وقتوں پر ہنستے بھی ہیں جب ان کو کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ مگر انہوں نے مل کر ‘ ہاتھوں میں ہاتھ لے کرمشکلات کا مقابلہ کیا تھا۔ جب اس قسم کی یادیں تازہ نہ کی جائیں تواس کا مطلب یہ ہے کہ احساسات میں کوئی نمایاں تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔یہ بھی یاد رکھئے کہ جب دو افراد مل جل کر رہتے ہیں تو وہ ضرور اپنے خیالات کے بارے میں وقتاً فوقتاً باتیں کرتے رہتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کے خیالات‘ تصورات اور اعتقادات میں کس قسم کی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ اس طرح ساتھی کو اپنی ذہنی دنیا کی سیر کروانا اصل میں باہمی محبت اور بھروسے کی نشانی ہے۔ اس لئے اگر آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ایک عرصے سے آپ اپنے ساتھی کے ساتھ اس قسم کے معاملات پر گفتگو نہیں کر رہے تو جان جائیے کہ یہ بھی خرابی کی علامت ہے۔
آپ مشترکہ دلچسپیوں کو فروغ دینا بند کردیتے ہیں
ہمارے زمانے میں ازدواجی بندھنوں کے باوجود میاں بیوی کی آزادی کا احترام کرنے کا بہت چرچا ہوتا ہے ۔ پہلے یہ معاملہ مغربی دنیا تک محدود تھا۔ مگر اب یہ تصور ہمارے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی مقبول ہو چکا ہے۔ خیر‘ اس میں کوئی خرابی نہیں‘ شادی سے دو افراد ایک نہیں ہو جاتے۔ ان کی علیحدہ علیحدہ شناخت اور وجود قائم رہتے ہیں۔ اس لئے ان کی انفرادی آزادی قابل قدر ہے۔ تاہم شادی کے بندھن کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان مشترکہ دلچسپیاںموجود رہیں۔ چونکہ ہماری دلچسپیاں تبدیل ہوتی رہتے ہیں‘ لہٰذا نئی سرگرمیوں اور دوستوں کو قبول کرنے پر ہمیں آمادہ رہنا چاہیے۔ مشترکہ دلچسپیاں موجود ہوں تو میاں بیوی فرصت کے اوقات سے اکٹھے لطف اٹھا سکتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں یہ نہیں ہوتا کہ جب کبھی فرصت نصیب ہو یا چھٹی کا دن آئے تو میاں منہ اٹھا کر ٹی ہاﺅس نکل جائے۔ بیوی گھر بیٹھ کر پی ٹی وی کے بوسیدہ پروگرام دیکھتی رہے اور کڑھتی رہے۔مشترکہ دلچسپیاں دونوں کو مل جل کر فرصت کے لمحات گزارنے کا موقع دیتی ہیں۔ اس لئے جب میاں بیوی دونوں اس قسم کی دلچسپیوں اور مشغلوں کو فروغ دینے میں بے نیاز ی سے کام لینے لگیں تو یہ ایک منفی اشارہ ہے جو بتاتا ہے کہ ان کی ازدواجی زندگی میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
آپ اپنے ساتھی سے گریز کرنے لگتے ہیں
ساتھی سے فرار کے مواقع کی تلاش میں رہنے کا مطلب یہ ہے کہ بندھن کمزور ہو رہا ہے۔ اس میں محبت کی کمی ہے۔ آپ اس کو بوجھ سمجھنے لگے ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ کو اس امر کا احساس نہ ہو اور یہ عمل لاشعوری سطح پر جاری ہو۔ پھر بھی یہ رویہ ازدواجی زندگی کیلئے نیک شگون نہیں ہے۔ساتھی سے فرار کا ایک عام طریقہ گھر دیر سے جانا ہے اور بھی طریقے ہیں۔ مثلاً گھر سے باہر ضرورت یا معمول سے زیادہ دلچسپیاں تلاش کرنا‘ زیادہ شراب پینا‘ جلدی سونا‘ یا پھر اس انتظار میں رہنا کہ ساتھی کی آنکھ لگ جائے تو آپ بیڈ روم میں داخل ہوں۔ اس طرح اگر آپ نے اپنے ساتھی کی پسند کا لباس پہننا چھوڑ دیا ہے یا اس کے پسندیدہ کھانے آپ کو زہر لگنے لگے ہیں تو اس کو بھی پرمسرت ازدواجی زندگی کیلئے خطرے کی گھنٹی سمجھئے۔یہ خطرے کی سات علامتیں ہیں۔ اصل میں یہ بہت ہی نمایاں قسم کی علامتیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے علاوہ اور بھی کئی علامتیں ممکن ہیں۔ تاہم ان سب کو یہاں درج کرنے اور ان کی تفصیل بیان کرنے کے بجائے ہم کہیں گے کہ جس قدر زیادہ منفی علامتیں آپ کو اپنی ازدواجی زندگی میں نظر آئیں اسی قدر آپ کو احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ آپ کو تسلیم کرنا ہو گا کہ آپ اور آپ کے شریک حیات کو ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے پر سنجیدگی سے توجہ دینے کا وقت آ گیا ہے۔ یہ وقت ہمیشہ نہیں رہتا۔ اس سے فائدہ نہ اٹھایا جائے تو حالات قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔ علیحدگی تک نوبت نہ پہنچے تو بھی گھریلو زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ دو افراد کی رفاقت خوشیوں کا وسیلہ بننی چاہیے‘ مگر بگڑ کر وہ اذیت کا باعث بن جاتی ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 224
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں